مہر خبررساں ایجنسی نے ایکسپریس نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عمران خان نے کہا کہ ڈونلڈ لو نے جو بات کی اس پر پاکستانی سفیراسد مجید نے آفیشل میٹنگ میں ڈی مارش کرنے کی سفارش کی، سفیر کی سفارش پر ڈی مارش کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ سازش نہیں ہوئی، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا سائفر نہیں آیا، شاہ محمود کو بائی چانس اس سائفر کا پتا چلا ورنہ وہ سائفر جنرل (ر) باجوہ کے لیے تھا جسے دبانے کے لیے پوری کوشش کی گئی کیونکہ اس سے ڈونلڈ ڈو ایکسپوز ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ تین ہفتے میں حکومت گرا دی گئی اس سے بڑی سازش کیا ہے؟ سائفر میں اگر انہونی چیز نہیں تھی تو ڈی مارش کیوں کیا گیا؟ کیا کوئی امریکا کو ڈی مارش کرتا ہے؟ جس روز ڈی مارش کیا گیا سائفر اسی روز پبلک ہوگیا تھا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میٹنگ میں سائفر کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں کہا گیا؟ سائفر کے معاملے پر پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی گئی وہ کس کی دھمکی پر ختم ہوئی؟ ہم نے چیف جسٹس سے بھی کہا تھا کہ سائفر معاملے کی انکوائری کی جائے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے ساڑھے تین سالہ دور میں کسی ملک کو ڈی مارش نہیں کیا گیا لیکن سائفر کے بعد ہمارے ممبران ٹوٹنا شروع ہوئے راجہ ریاض سمیت بہت سے لوگ امریکی ایمبیسی جا رہے تھے جس پر آئی بی کی رپورٹ بھی موجود تھی، ارشد شریف کا پروگرام بھی موجود ہے کہ کون کون سے لوگ امریکی ایمبیسی جا رہے تھے، اکتوبر 2021ء میں باجوہ نے حسین حقانی کو ہائر کیا ہمیں اس کا علم تک نہ تھا حسین حقانی کو 35 ہزار ڈالر دیے گئے اور حسین حقانی سے ٹویٹ کروایا گیا کہ عمران امریکا مخالف جبکہ باجوہ امریکا کے حق میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج آرمی چیف کی ہدایت کے بغیر کچھ نہیں کرتی، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے خلاف میں نے کبھی کوئی بیان نہیں دیا ہمیں پتا ہے کہ فوج کیسے کام کرتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ہمیں انتخابی مہم نہیں چلانے دی جا رہی میرا اور نواز شریف کا معاملہ الگ ہے نواز شریف اور مریم نااہل ہوئے تھے جبکہ شہباز شریف کو باجوہ کی مکمل حمایت حاصل تھی، ان کے جلسوں میں کوئی نہیں آرہا ڈر ہے کہ یہ الیکشن سے بھاگ نہ جائیں کیوں کہ اکتوبر میں بھی یہ الیکشن سے بھاگے تھے، آٹھ فروری کو ہر صورت الیکشن ہونے چاہیئں۔
آپ کا تبصرہ